Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 1

جونیجو قادر بلوچ کا خاص بندہ اگر اُسکا بازو اُسکی طاقت کہا جائے تو بھی غلط نہ ہوگا۔قادر بلوچ کے ہر جائز نا جائز کام کو نظر میں رکھتا تھا اور قادر بلوچ جونیجو پر ُمکمل اعتماد کرتا تھا۔صرف چھ ماہ میں ہی وہ اس قدر قادر بلوچ کے قریب آ گیا تھا کہ قادر بلوچ کے سگے بیٹے بھی اپنے باپ سے ملنے کے لئے اُسکی اجازت لیتے تھے اس وجہ سے وہ بہت سارے لوگوں کی آنکھ میں کھٹکھنے لگا تھا کہ سب اس سے حسد اور جلن محسوس کرتے تھے جو نہ صرف نڈر،بہادر،چُست و چالاک تھا بلکہ اُسکی شخصیت میں ایک روب اور دبدبہ تھا سب ہی اُس سے بات کرتے ہوئے ڈرتے تھے جو نگاہ ہی اُٹھاتا اور اگلا بندہ کانپ کے رہ جاتا۔کم پڑھا لکھا ہونے کے باوجود بھی وہ بلا کا زہین تھا کہ اگلے بندے کی شکل سے ہی وہ اُس کے بارے میں اندازہ لگا لیتا تھا۔رب نے اُسے زہانت کے ساتھ ساتھ وجاہت سے بھی بے شُمار نوازاہ تھا جو بھی اُس پر پہلی نظر ڈالتا ایک پل کو نگاہ اُس کے چہرے پر ساکن ہو جاتی تھی۔چھ فیٹ سے نکلتا قد،چوڑا سینہ،گُندمی رنگ،گرے آنکھیں جن میں اگلے بندے کو نگل لینے کی صلاحیت موجود تھی،سیاہی مائل ہونٹ جن میں سگریٹ ہمہ وقت رہتی تھی،ستواں ناک اور ہلکی ہلکی داڑھی اور بڑی مونچھوں میں وہ بلا کا حسین اور مردانہ وجاہت کامُنہ بولتا ثبوت تھا۔ "جونیجو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا کہ ایک نسوانی آواز پر نہ صرف رُکا تھا بلکہ پلٹ کر بھی دیکھا تھا جہاں نتاشا خان اپنی تمام خوبصورتی سمیت کھڑی اسے آنکھوں کے راستے دل میں اُتار رہی تھی۔ "آج پانچ دن بعد میری آنکھیں تیرا دیدار کر رہی ہیں اور اپنی پیاس بُجھا رہی ہیں پر تُم ہو کے پھر بھی بنا سلام اور حال چال کے ہی چل دئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "جونیجو کے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہوتا کہ ہر کسی کی عیادت کرتا پھرے اور ویسے بھی اپنی چال دُرست سمت رکھو تو حال اچھا ہی رہے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" جونیجو کے سپاٹ انداز پر وہ گہرا سانس بھرتے ہوئے دلکشی سے مُسکرائی۔ "جونیجو کو دیکھ کر کوئی چال کیسے دُرست رکھ سکتا ہے حال تو پھر بے حال ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "نفس کو اتنا بے قابو بھی نہیں کرنا چاہیئے کہ آپ کو حال سے بے حال کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کہتے ہوئے جانے لگا مگر نتاشا اُس کے سامنے آتے اُسکا راستہ روک گئی۔ "نفس کو اتنا بھی قابو نہیں کرنا چاہئیے کہ ایک خُوبصورت دوشیزہ آپ کو اپنا آپ سونپنے کے لئے مری جا رہی اور آپ یوں نظر انداز کر کے آگے بڑھ جائےچلو زیادہ نہ سہی ایک رات تو اپنی قُربت سے ہم فقیروں کو نواز کے ہماری جھولی بھر سکتے ہیں نہ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نتاشا نہ صرف پہناوے سے بے باک دکھتی تھی بلکہ وہ بولنے کی حد تک بے باک تھی اور جونیجو کو اُسکی اس بے باکی سے شدید نفرت تھی۔ "پر مُجھے حرام کھانے کی نہ عادت ہے اور نہ میں کسی کے جھوٹے کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے لہجے میں بلا کی کاٹ اور تمسخر تھا جو نتاشا کا چہرہ جلا کر رکھ گیا تھا۔وہ قادر بلوچ کی منظور نظر تھی جسے وہ کسی کوٹھے سے اُٹھا کر لایا تھا مگر نتاشا جو ایک چوبیس سالہ جوان اور خوبصورت لڑکی تھی پچپن سال کے قادر بلوچ سے تنگ آچُکی تھی اور چھ ماہ پہلے جونیجو کو دیکھتے ہی وہ اس پر مر مٹی تھی اور بہت سے حُلیے اور بہانوں سے اسے اپنی طرف راغب کرنا چاہا اپنی اداؤں کے تیر چلانے چاہے پر آگے کوئی عام مرد نئیں بلکہ جونیجو تھا جسے اپنے نفس پر بلا کا قابو تھا۔ "تو حلال کر کے کھا لو۔اگر پتہ ہوتا کہ تُجھ سے پالا پڑنا ہے تو خود کو تیرے لئے بچا کے رکھتی جیسے چھ ماہ سے کسی کو اپنے نزدیک نہیں آنے دیا قادر بلوچ کو بھی نہیں اب صرف تُمہاری حسرت ہے پر مُجھے لگتا کہ تُمہارے کُچھ لمحے چُرانے کے لئے مُجھے قادر بلوچ کی سفارش ڈلوانی پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"نتاشہ نے اپنے بالوں کو ایک ادا سے پیچھے کیا تھا اور جونیجو کے لبوں پر ایک طنزیہ مُسکراہٹ اپنی چھب دکھلا کر غائب ہو گئی۔ "جونیجو اپنی زاتی زندگی اپنے طرز کے مُطابق جینے کا عادی ہے اور اپنی زاتی زندگی میں کسی کی دخل اندازی مُجھے پسند نہیں چاہے وہ قادر بلوچ کا باپ بھی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ نڈر انداز میں بولتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا تو نتاشہ جو اُسکی سحر انگیز گرے آنکھوں میں کھوئی تھی اسکے دور جانے سے حواسوں میں آئی اور گہرا سانس بھرتی واپسی کو پلٹی۔

"________________________________"

وہ سیدھا گھر آیا تھا اور کمرے میں آ کر اپنی پکیکنگ کرنے لگا کہ دروازہ کُھلا اور اُس کے ماں باپ کمرے میں داخل ہوئے جو کہ اُسکی تیاری کُچھ حیرانی سے دیکھتے اندر آئے تھے۔ "جونیجو ابھی تو تُم آئے تھے بیٹا پھر سے تیاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عامرہ خاتون کے بولنے وہ انکی طرف بنا پلٹے بولا۔ "ہاں کُچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کس کے کام سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ کبیر امجد نے پوچھا تھا۔ "قادر بلوچ کے کام سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "یہ جانتے ہوئے بھی کہ تُمہارا اس طرح اکیلے کسی دُوسرے شہر جانا کسی بھی خطرے کا باعث بن سکتا ہے پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ "جو خُود دُوسروں کے لئے خطرہ ہو اُسے کسی دُوسرے خطرے سے پرواہ نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" وہ بے پروائی سے بولتا دُونوں کے چہروں پر بے سکونی لا گیا۔ "مریام شاہ سے بڑھا کوئی خطرہ نہیں جونیجو کے لئیے یہ بات تمہیں زہن میں رکھنی چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کے کبیر امجد کے لہجے میں کوئی ایسی بات تو تھی جس پر جونیجو نے غور کرتے ہوئے کبیر امجد کی طرف دیکھا تھا اور پھر مُسکرا دیا جیسے کسی بچے کی بات پر مُسکرایا جاتا ہے۔ "یہ بات بھی تو مریام شاہ کے لئے ہی خطرے کی باعث بنے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "میری تو کُچھ سمجھ میں نئیں آ رہا،وہاں مریام شاہ کو چھوڑ کر آئے ہیں تو یہاں ویسا ہی قادر بلوچ مل گیا،آخر تُم کیوں اُسکے ساتھ کام کرنا چاہتے ہو تُم جانتے ہو تُم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو پھر بھی یہ سب کیوں کر رہے ہو تُمہاری فکر مُجھے ساری رات سونے نہیں دیتی سو سو دُشمن ہوتا ایسے لوگوں کا اور ایسے لوگوں کا کیا بھروسہ اپنے ہی بندوں کے دُشمن بن جائیں جیسے مریام شاہ تُمہارا بنا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"عامرہ خاتون کے لہجے میں چُھپا ڈر اور خوف سمجھتے ہوئے جونیجو اُنکو بیڈ پر بیٹھاتا اُن کے ساتھ ٹک کر نرمی سے بولا۔ "آپکو فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں،مریام شاہ جیسے آدمی سے مُقابلہ کرنے کے لئے قادر بلوچ جیسے آدمی کے ساتھ کی ضرورت تھی۔اپنی جان پر کھیل کر قادر بلوچ کی دو دفعہ نہ صرف اُسکے دُشمنوں سے جان بچائی ہے بلکہ اُس کُچھ ایسے کام بھی کروائے جو کوئی مائی کا لال نہیں کر سکتا تھا،کیوں بس مریام شاہ سے بدلہ لینے کے لئے مُجھے اُس جیسے ہی کسی بندے اور ویسی ہی طاقت کی ضرورت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "پر ہم انصاف کے لئیے عدالت سے رجوع بھی تو کر سکتے تھے نہ پر تُم کیوں اس راہ پر چل رہے ہو جہاں جان کو بھی ہر وقت خطرہ رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کونسی عدالت ماں،یہ پاکستان ہے یہاں کالا قانون ہی چلتا ہے اور پھر اُس مریام شاہ کے خلاف جس کے وزیر تک پاؤں آ کر پڑتے ہیں اور پولیس والے بڑے بڑے آئی جی جیسے اُسکا ہی دیا کھاتے ہیں،ان جیسے لوگوں سے لڑنے کے لئے ان جیسے لوگوں کی ہی ضرورت ہوتی ہی ماں،اور قادر بلوچ تو پھر وہ انسان ہے جس کا پلڑہ مریام شاہ سے بھی بھاڑی ہے،آپ لوگ فکر مند نہ ہوا کرے جونیجو سوچ سمجھ کر چلنے کا عادی ہے اور مُجھے کسی بھی کھیل میں مات نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ مظبوط لہجے میں بولا۔ "ہماری دُعائیں تُمہارے ساتھ ہیں بیٹے۔۔۔۔۔۔۔۔" کبیر امجد نے اُسکے کندھے ہر ہاتھ رکھا تھا تو وہ سر ہلا کر کھڑا ہو گیا۔ "دو دنوں کے لئے جا رہا ہوں۔چوکیدار اور گن مین گیٹ پر موجود ہیں اور آپ لوگ گھر سے باہر نہیں نکلیں گئے دوسرا کوئی بھی ایمرجنسی ہو تو مُجھے کال کر دئیجئیے گا،چلتا ہوں اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ دونوں سے اجازت لیتا باہر کی جانب چل دیا۔

"_____________________________"

"مُجھے میریام شاہ سے بات کرنی ہو گی کیونکہ اس سے بہتر کوئی دوسرا موقع نہیں مل سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ خود سے کہتا ہوا مریام شاہ کے آفس کی طرف بڑھا مگر اُس کی آفس میں نہ موجودگی کا اندازہ کرتا علینہ کی طرف بڑھا جو کمپیوٹر پر کُچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ "مریام شاہ آفس میں نہیں ہے کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اگر ٹائم کی طرف ایک نظر ڈال لیتے تو تُمہیں مُجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"علینہ نے دل جلانے والی مُسکراہٹ اُسکی طرف اُچھالی اور دوبارہ اپنے کام میں لگ گئی۔اُسامہ نے حسب معمول ایک گُھوری سے اُسے نوازہ اور ہاتھ پر بندھی اپنی واچ کی طرف دیکھا جہاں شام کے سات بج رہے تھے اور اس ٹائم مریام شاہ اپنے پرائیویٹ روم میں ہوتا تھا جہاں کسی کو جانے کی اجازت تک نہ تھی۔ "مُجھے بہت ضروری بات کرنی ہے اُن سے،اُن سے بولو کہ اُسامہ ملنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "مُجھے اپنی جان تُم سے زیادہ عزیز ہے اس لئے مُجھ سے ایسی توقع مت رکھنا،ویسے بھی ایک گھنٹہ ویٹ کر لو وہ آفس میں آ جائیں تو بات کر لینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "مُجھے تُمہارے مُفت مشوروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ چڑ کر بولتا مریام شاہ کے آفس کی طرف بڑھ گیا۔علینہ کندھے اُچکاتی اپنے کام کی طرف متوجہ ہوئی۔ اُسامہ کو بیٹھے ایک گھنٹہ ہوا تھا کہ پرائیوٹ روم کا دروازہ کُھلا تھا اور خاکی پینٹ اور گرے شرٹ پہنے اپنی مردانہ وجاہت لئے مریام شاہ آفس میں داخل ہوا تھا۔اُسامہ اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔ "بولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کہتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھا تھا اور ساتھ اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا۔ "جونیجو کراچی آیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ نے اپنی طرف سے بڑی خبر دی تھی مگر مریام شاہ کے تاثرات دیکھ کر اُسکا جوش جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ "افسوس تُم دو گھنٹے لیٹ ہو گئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی بات کا مطلب سمجھتے وہ دل ہی دل میں اُس اطلاع دینے والے کو کوس کر رہ گیا۔ "تو پھر آپ نے اُس کے لئے کوئی حُکم کیوں نہیں دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ کو حیرانی ہوئی تھی۔ "مُجھے یقین نہیں آ رہا کہ تُم بارہ سال میرے ساتھ رہ کر بھی اتنے عقلمند نہیں ہوئے کہ میری باتوں کو سمجھ سکو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسامہ اُسکی بات پر خفیف سا ہو گیا۔ "بڑی مچھلی کو پکڑنے کے لئے چھوٹی مچھلی کو کُھلا ہی رہنے دینا چاہیئے اور تُم جانتے ہو میرا اصل ٹارگٹ قادر بلوچ ہے اُس تک جانے کے لئے جونیجو ہی ہمیں کوئی راستہ دکھا سکتا،ویسے بھی مریام شاہ کو چھوٹے لوگوں کی فکر نہیں ہوتی جو مُجھ سے مقابلہ کرنے کے لئے کسی دوسرے کے سہارے کے محتاج ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے لہجے میں اپنی زات کا غرور صاف چھلک رہا تھا۔اُسامہ بھی سمجھ کر مُسکرایا تھا۔ "میرے لئے کیا حُکم ہے اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "سُنا ہے جونیجو کسی بہت ہی خاص کام سے کراچی آیا اور وہ کام کا ہونا قادر بلوچ کے لئے بہت ضروری اور میریام شاہ کے لئے اُسکا نہ ہونا ضروری ہے،آگے تُم سمجھ تو گئے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے لبوں کو ایک خوبصورت مُسکراہٹ نے چُھو لیا تھا۔اُسامہ بھی جیسے سمجھ کر مسکرایا۔اور باہر کی جانب قدم بڑھا دئیے۔

"_____________________________"

آج صُبح سے ہی بارش زور و شور سے ہو رہی تھی اور وہ کمرے میں بند بستر میں گھس کے بیٹھی تھی اُسے بچپن سے ہی بارش اور بادلوں کی گرج چمک سے بہت ڈر لگتا تھا کیونکہ ایک ایسی ہی رات میں اُس کے ماں باپ اور بھائی کو کسی نے بڑی بے رحمی سی مار کر ان کے گیٹ پر پھینک کر چلے گئے تھے۔تب یہ صرف دس سال کی تھی اور تب کا آن بیٹھا خوف ابھی تک نہیں نکلا تھا۔ "پرخہ بیٹی۔کہاں ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صندل بوا جو بچپن سے اسکی ماں باپ ہر رشتہ نبھا رہی تھیں جانتی تھیں وہ بارش سے بہت ڈرتی ہے اس لئے حویلی کا کام نپٹا کر اسکے پاس آئیں تھیں۔ "بُوا میں یہاں ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"ہمیشہ کی طرح آج بھی اُنکو دیکھ کر اسے ڈھارس ملی تھی۔صندل بوا اسکے بستر پر ہی ٹک گئیں تو پرخہ نے اپنا سر اُنکی گود میں رکھ لیا اور اُن کے ٹھنڈے یخ ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور بولی۔ "آپ اب کام نہ کیا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "میں نہ کروں تو کیا تُمہیں کرنے دُوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"صندل بوا نے پیار سے اُس کے نرم و ملائم بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ "اتنے تو کام کرنے والے لوگ ہیں اس حویلی میں،نو مالک ہیں اور پچاس ملازم ہیں پھر بھی آپ کیوں تائی ماں کے کام کرتی ہیں مُجھے اچھا نہیں لگتا،آپ بس ہر ٹائم میرے پاس رہا کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں پر نسیماں بی بی ہم دونوں کو یوں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے دیکھ نہیں سکتیں یوں سمجھو کہ دو وقت کا کھانے کے لئے کسی ایک کو تو اُنکی چاکری کرنے پڑے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "تو آپ بیٹھیں میں آپ کے حصے کا کام کرونگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ پرجوش انداز میں اُٹھی مگر صندل بوا نے سر نفی میں ہلایا۔ "آج کے بعد ایسی بات بھی اپنے مُنہ سے مت نکالنا،تُم ابھی پیدا ہونے والی تھی جب حُسنہ بی بی نے مُجھے اپنے پاس بلوایا تھا تُمہاری دیکھ بال کے لئیے اور تب سے میں تُمہارے ساتھ ہوں کراچی جانے سے پہلے بھی حُسنہ بی بی نے مُجھے تُمہارا خاص خیال رکھنے کو کہا تھا تو میں کیسے تُمہیں یوں کام کرتے ہوئے دیکھ سکتی ہوں،تُم تو شہزادیوں کی طرح رہا کرو تا کہ کُچھ تو میں وجاہت صاحب اور حُسنہ بی بی کا قرض اُتار سکوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انکی نگاہیں نم ہو گئیں تھیں۔پرخہ کی آنکھوں کے آگے اپنے ماما پاپا اور پانچ سالہ ساحل کی خُون سے لت پت لاشیں لہرائیں تو اُسکی آنکھیں بھی پانیوں سے بھر گئیں۔ "بُوا کتنے اچھے دن تھے نہ وہ جب ماما پاپا میں اور ساحل گھومنے جایا کرتے تھے،میں اور ساحل ایک ساتھ سکول جاتے تھے اور ماما ہمیں مزے مزے کے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتی تھیں اور پاپا مُجھے اپنا بیٹا اور ماما ساحل کو اپنا بیٹا کہہ کر گیمز کھیلتے تھے ایک مُکمل اور خُوشحال گھرانہ تھا ہمارا بوا کس کی نظر لگ گئی یوں اچانک سے کون کھا ہماری خُوشیوں کو یہ بھی نہ سوچا کہ ساحل ایک معصوم بچہ اُسکا کیا قصور تھا اُس کے سینے پر گولی برساتے زرا رحم نہ آیا ظالموں کو بوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ کی آنکھوں سے آنسو تسبیح کے دانوں کی طرح گرنے لگے۔صندل بُوا بھی سسک اُٹھیں۔ "بس بچہ جب خُون ہی ایک دوسرے کے پیاسے بن جائیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیا مطلب بُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"پرخہ نے نہ سمجھی سے دیکھا تو وہ گڑبڑا کر جیسے ہوش میں آئیں۔ "کُچھ نہیں بیٹا،بس تُمہارے پاپا کے دُشمن بہت تھے کسی سے برداشت نہیں ہوا تھا اُنکا وزیر بننا اور ترقی کرنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "تائی لوگ بھی تو دُشمن ہیں نہ ہمارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "چپ بچے کیا بول رہی ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"انہوں نے جلدی سے اس کے مُنہ پر ہاتھ رکھ کر کسی اور بات سے روکا تھا۔ "سچ ہی تو ہے بُوا ،میں اور آپ بارہ سالوں سے اس حویلی میں قیدیوں جیسی زندگی گُزار رہے کبھی ہم نے اس حویلی کی چار دیواری سے باہر کی دُنیا کو نہیں دیکھا،میں جو مالکوں میں شامل ہوں مگر نوکروں سے بدتر زندگی گُزار رہی ہوں ہمیشہ مُجھے تائی کی دونوں بیٹیوں کا اُترن پہننے کو ملا ہے اور آج تک ہم اپنی مرضی سے نہ کہیں بیٹھ سکے ہیں اور نہ کسی چیز کو ہاتھ لگا سکیں ہیں کیوں میں بھی تو وجاہت بلوچ کی بیٹی اور اس جائیداد کی برابر کی شراکت دار ہوں نہ تو میرے ساتھ ایسا سُلوک کیوں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"بارہ سالوں سے پوچھے جانے والا سوال پھر سے ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح بُوا کے پاس ان سوالوں کے جواب ہوتے ہوئے بھی چُپ کے علاوہ کوئی جواب نہ تھا۔ "دُعا کرو وہ آ جائے تا کہ تُہاری ہر تکلیف ختم ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "نہیں آئے گا بُوا وہ ،اگر آنا ہوتا تو اب تک آ چُکا ہوتا اُسے سب پتہ ہے کہ کیا ہو رہا میرے ساتھ پھر بھی وہ دیر کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اب کہ وہ چڑ گئ تھی اُس کے نام سے جو واحد اُمید کی ڈور تھی اُسکی اندھیری زندگی میں روشنی لانے کی پر اُسکا کوئی آتا پتہ نہیں تھا ۔ "اُسے آنا تو پڑے گا،وہ بھی جانتا ہے تیرا اس زندان میں زیادہ رُکنا کسی خطرے سے خالی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "کیا پتہ میں اُسے یاد بھی نہ ہوں آخر وہ تب صرف پندرہ سال کا تھا،ایک پندرہ سال کے لڑکے کا ایک دس سال کی لڑکی سے کیا وعدہ کیا یاد رہے گا۔۔۔۔۔۔۔" "یاد رہے گا کیا بلکہ اُسے یاد ہوگا کیونکہ تم دونوں کا اُس وعدے سے ہٹ کر بھی تو ایک رشتہ ہے جو اُسے ضرور تم تک لائے گا۔۔۔۔۔۔۔"صندل بُوا کے لہجے میں یقین بول رہا تھا جو اسے بھی اُمید کی نئی کرنیں تھما گیا۔

"__________________________________"

"سائیں،راٹھور ملنے آیا آپ سے۔۔۔۔۔۔"قادر بلوچ اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ گُھمن کی آواز پر رُکا اور پھر اپنے آفس میں آیا جہاں راٹھور بیٹھا سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہا تھا۔قادر بلوچ نے گُھمن کو وہی دروازے پر ہی رُکنے کا اشارہ کیا اور خُود اندر چلا گیا مگر جانے سے پہلے دروازہ اچھی طرح بند کرنا نہیں بھولا تھا۔ "یہی تو تُمہاری ادا پسند ہے بلوچ،تُم حفاظت بہت کرتے ہو خاص انسانوں کی۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور نے مُسکراتے ہوئے کہا اور مُنہ پر لگا ماسک اُتار کر ٹیبل پر رکھ دیا جبکہ قادر بلوچ نے پھرتی سے لائٹ آف کر دی تھی کہ ٹیبل پر پڑے لیمپ کی روشنی میں صرف اُسکی ٹانگیں اور ہلتا پاؤں ہی نظر آ رہا تھا۔ "احتیاط لازم ہے راٹھور کیونکہ تُمہارا منظر عام پر آنے کا مطلب کہ ہم تینوں کا دی اینڈ،وہ کھیل جو بارہ سالوں سے رچایا ہوا اُسکا بھی بھیانک انجام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اُسکی تُم فکر مت کرو بس ایک،ایک دُشمن کا کام تمام ہو جائے تو باقی کے چھوٹے موٹے تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور نے سگریٹ کا لمبا سا کش لیا۔ "وہ ایک ہی سو پر بھاڑی ہے راٹھور،غلطی تو ہم سے ہو گئی بارہ سال پہلے اگر ہم عقل کا استمال کر لیتے تو اب یہ دُشمن ہمارا جینا حرام نہ کرتا،پر سمجھ مجھے یہ نہیں آ رہی کہ یہ اتنے سال تھا کہاں؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "اب یہ سوچنا کہ وہ اتنے سال تھا کہاں فضول ہے بلکہ اب تو یہ سوچنا چاہیئے کہ اسے کس طرح وہاں بھیجنا ہے جہاں آج سے بارہ سال پہلے اُس کے ماں باپ کو بھیجا تھا۔۔۔۔۔۔"راٹھور کی بات پر باہر کھڑا گھمن چونکا تھا اُس نے دروازے کے سوراخ سے راٹھور کو دیکھنے کی کوشش بار بار کی تھی مگر وہ ہر بار ہی ناکام ہوا تھا کیونکہ وہ اندھیرے میں بیٹھے تھا اور اُسکا صرف پاؤں ہی نظر آ رہا تھا جو مسلسل ہل رہا تھا۔ "اور یہ سب کیسے ہوگا،تُم جانتے نہیں مریام شاہ کو،ہر بازی وہ ہم پر اُلٹ دیتا ہے اُسے مات دینے جاتے ہے تو خُود مار کھا کے آ جاتے ہیں۔..۔۔۔"بلوچ کے چہرے پر غُصہ دیکھ کر راٹھور مُسکرایا پھر اُٹھ کر ٹیبل سے گلاس پکڑ کر اُسکی طرف بڑھایا۔ "تُمہیں اس ٹائم اسکی زیادہ ضرورت ہے بلوچ کیونکہ ہمیشہ سے تُم مریام شاہ کے جیتنے پر بوکھلا جاتے ہو بلکہ تُمہارا دماغ بھی کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔۔۔۔" "کہنا کیا چاہتے ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔" "وہی جو تم نظر انداز کر رہے ہو بلکہ بھول رہے ہو کہ مریام شاہ کی کمزوری تو ہمارے ہاتھ میں ہے اور وہ پتہ ہمیں تب استمال کرنا ہے جب مریام شاہ کو قابو میں کرنا ناگریز ہو جائے گا،تم سمجھ رہے ہو نہ۔۔۔۔۔۔۔"راٹھور کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے بلوچ سر اثبات میں سر ہلاتا ہنسا تھا اور پھر ہنستا ہی چلا گیا جسکا ساتھ راٹھور نے بھی دیا تھا اور باہر کھڑا گھمن اپنا موبائل ہاتھ میں لئے ایک طرف ہو گیا۔

   1
0 Comments